صبر اور برداشت


حمنیٰ ایم مجتبیٰ

وہ کمرے کا دروازہ بند کرکے باہر کو آ رہی تھی کہ دانیا سامنے کھڑی ہے ستارا ماجرہ دیکھ رہی تھی۔ معمول کی طرح ہر دوسرے یا تیسرے دن دانیا کے ابا کی محبوبہ ان سے ملنے کے لیے آتی جس پر اماں دروازہ بند کر کے وفادار چوکیدار کی طرح باہر بیٹھ کر دھیان رکھتی کہ کوئی ابا اور ان کی محبوبہ کی ملاقات میں کوئی خلل نہ ہو۔

"مجھے سمجھ نہیں آتا آخر آپ ایسا کیوں کرتی ہیں"

وہ آج پھوٹ ہی پڑی۔

اماں جواباً خاموش رہی۔

"اچھا یہ ہی بتا دیں کہ یہ جو آپ کر رہی ہیں یہ صبر ہے یا برداشت؟"

دانیا کے اس سوال پر اماں کے لبوں پر ایک درد بھری مسکراہٹ آئی۔

"صبر میں برداشت"

اماں کا مختصراً جواب تا عمر کی تشریح کر گیا تھا۔ مگر دانیہ اس کو سمجھنے کے لیے ابھی بہت چھوٹی تھی۔

سورۃ الرعد آیت 24 میں ہے

"اور فرشتے ہر طرف سے ان کے استقبال کے لیے آئیں گے کہ تم پر سلام و رحمت ہو، یہ صلہ ہے تمہارے صبر کا"

صبر اور برداشت ایک دوسرے کے مترادف ہیں مگر ان کے معنی مختلف ہیں۔ اکثر لوگ انہیں ایک ہی معنی کے دو لفظ سمجھ لیتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔

پہلے بات صبر کی کرتے ہیں۔  اس کا لفظی مفہوم  "توکل اور شکر" کو صبر کہا گیا ہے۔ اس کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہے کہ آپ سنگین قسم کے سخت حالات میں ہو، آپ پر مشکل کے بادل ہوں مگر اس لمحے بھی آپ اپنا معاملہ اللہ تبارک و تعالی کے سپرد کرتے ہوئے توکل کی رسی کو تھامے رکھتے ہو اور اپنے رب سے رجوع کرتے ہو اور پھر اپنا معاملہ اس کی عدالت میں پیش کرتے ہو تو وہ آپ کا صبر ہے۔

حضرت علی نے فرمایا دو قسم کے صبر  اللہ کے حضور بہت پسندیدہ ہیں۔

"جو ناپسند ہو اس کو برداشت کرنا"

"جو پسند ہو اس کا انتظار کرنا"

اور دوسری طرف ہمارے پاس برداشت آتا ہے۔

برداشت کو اگر مختصراً بیان کیا جائے تو اس میں انسان کڑھتا ہے۔ اس میں وہ توکل کی رسی نہیں تھامتا۔  اپنا معاملہ اللہ کے سپرد اور اس کی عدالت میں پیش نہیں کرتا۔ جبکہ وہ اس پر گلہ کرتا ہے، جگہ جگہ اس برداشت کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے، حالات اور دوسروں کو برا بھلا کہتا ہے۔

اگر سادہ لفظوں میں کہا جائے کہ جب آپ پر مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے اور اس سے نکلنے کا کوئی راستہ آپ کو نظر نہیں آتا محض دو راستوں کے۔ کہ آپ صبر میں برداشت کرو یا محض برداشت۔ ان دونوں باتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

اور صبر وہ ہے جو انسان اختیارات ہوتے ہوئے بھی اللہ کی خوشنودگی کی خاطر توکل اور شکر کرتا ہے۔ صبر میں اللہ تبارک و تعالی اپنے بندے کو حالات سے لڑنے کا حوصلہ دیتا ہے اور اس کے لیے غیبی مدد اترتی ہے جو اس کے لیے آسانی اور ان حالات میں ڈٹے رہنے کا حوصلہ پختہ کرتی ہے۔ 

جو شخص صبر میں برداشت کرے گا چنانچہ وہ اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرے گا اس بات پر توکل رکھتے ہوئے کہ یہ مشکل کا بادل چھٹ جائے گا۔

سورۃ البقرہ آیت 240 میں ہے

"اور اللہ صابرین کے ساتھ ہے "

بے شک صبر کرنے والوں کا درجہ بہت بلند ہے۔

سورۃ الدھر میں ہے

"اور اللہ ان کو صبر کے بدلے انہیں جنت اور ریشمی لباس عطا کرے گا، وہاں وہ اونچی مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے"

اور دوسری طرف ایک شخص جو برداشت کر رہا ہے۔ وہ رویے گا، گلہ کرے گا، کوسے گا، رب سے شکوہ کرے گا اور حالات کو مزید سنگین بنا لے گا اور اس چیز سے مومن کو قطعی تنبیہ کی گئی ہے۔ 

دنیا آزمائشوں کا کمرہ امتحان ہے جس کا پرچہ حل کرنے کے لیے آپ کو دو قلم دیے گئے ہیں ایک صبر کا اور دوسرا برداشت کا۔ تو کوشش کیجئے صبر کا قلم تھامیے۔

 

Post a Comment

Post a Comment (0)

Previous Post Next Post