موت


 حمنیٰ محمد مجتبیٰ

 پہلا لیکچر تھا صبح کے نو بج کر تین منٹ ہورہے تھے, جب کلاس کا دروازہ کھلا اور یکدم کلاس میں سناٹا چھا گیا. 

وہ عموماً روز کی طرح آج بھی سب سے پیچھے دیوار کے ساتھ جا کر سر جھٹک کر بیٹھ گیا۔   جب سارے اس کو دیکھتے ہوئے ایک دوسرے کے کانوں میں سرگوشی کرنے لگے۔

اتنے میں پروفیسر جمیل نے اس کی خیریت پوچھی اور اس کے والد صاحب کی فاتحہ خوانی کے لئے سب سے کہا.. 

اب کلاس میں موجود سارے بچے پروفیسر جمیل کے ساتھ فاتحہ پڑھنے لگے۔ کچھ دیر کی فاتحہ کے بعد اب سب واپس اپنی خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے اور کلاس میں ایک دفعہ پھر ہنسنے اور قہقہوں کی آوازیں گونجنے لگی۔ اور پروفیسر اپنے مارکر کا کیپ اتار کر وائٹ بورڈ پر لکھنے میں مصروف ہوگئے۔

یہ میری زندگی کے ان واقعیات میں سے ایک واقعہ تھا جس پر مجھے انسان کی قدر وقیمت کا بخوبی اندازہ ہوا۔ کہ انسان صرف خاک ہے، ایسی خاک جس کو ہوا کا ایک تیز جھونکا خود کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اڑا کر لے جاتا ہے۔

تو آخر انسان کیا ہے؟ بس اتنی سی وقعت اسکی؟ کیا کسی کو فرق تھا اس کے والد صاحب دنیا سے چلے گئے؟ کیا اس کے والد کے لیے دنیا کا نظام ان کی مسکراہٹیں رکی؟ کیا کوئی بھی نظام متاثر تھا؟ نہیں!!!

کیونکہ تلخ حقیقت یہی ہے نہ کسی کے جانے سے کچھ رکتا ہے, نہ ہی کوئی نظام متاثر اور جانے والے کا غم گزرتے لمحوں کے ساتھ انسان میں صبر بھر دیتا ہے۔

انسان کی قیمت تو کسی معمولی سی چیز سے بھی کم ہے۔ جبکہ کوئی برینڈیڈ سوٹ یا پھر کوئی پراپرٹی ایک انسان سے ڈھیر گنا اہمیت کی حامل ہے۔

اگر کسی عورت کا کوئی قیمتی جوڑا جل جائے  تو وہ کئی مہینوں تک اس کا غم کرتی رہتی ہے اور اگر کسی آدمی کی پراپرٹی ڈوب جائے تو اکثر اسی غم میں وہ مر جاتا ہے۔  اور دوسری طرف انسان ہے جس کے مرنے پر صرف چار دن کے آنسو، تین دن کا کھانا اور کچھ لوگوں کے افسوس اور غم کے بعد آگے بڑھ جایا جاتا ہے, یہ سوچتے اور کہتے ہوئے موت تو تلخ حقیقت ہے جو آج یا کل تو آنی ہی ہے۔.  

تو کیا یہ حقیقت نہیں؟ جن چیزوں کو تم مستقل سمجھ بیٹھے ہوں وہ سب بھی تو عارضی ہیں اور اس عارضی کے پیچھے جو مستقل ہے اسکو بھلا بیٹھے ہو۔

جن اپنوں پر انسان ساری عمر مان کرتا رہتا ہے موت کے اگلے ہی لمحے وہ سب بھول کر بٹوارے اور تقسیم کی پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ 

تو پھر مان کیسا؟  کیا پایا جبکہ سب کچھ ہی کھویا۔

 کیوں پھر عارضی کے لئے تم اس مستقل سے بھاگتے ہو؟

 اس ذات کا سہارا کیوں نہیں تھامتے؟ جسکا ساتھ  ازل سے ابد تک کا ہے۔

 جو تمہاری ہزار غلطیوں پر بھی تمہیں نوازتا ہے۔

 جو تمہارے ہر کبیرہ پر بھی تمہیں بخشتا ہے۔

 جو تمہارے ایک آنسو پر سو منزلیں بنا دیتا ہے۔

 جو تمہاری ایک پکار پر کن فیکن فرما دیتا ہے۔. 

اے ابن آدم!! اے بنت حوا!! تم کس کے پیچھے بھاگ رہے ہو؟ تم کس کی تلاش میں حیات غرق کر رہے ہو؟

یہ تو سب عارضی ہے یہ تو مخص ڈھکوسلہ ہے. 

ہ دنیا تو ان کے جانے پر بھی نہیں رکی، جن کے لیے اس کو تخلیق کیا گیا ہے اور تم تو پھر خاک ہو"

2 Comments

  1. In brief words you describe the bitter truth of Human beings life.Simple and attractive article.and reflect the reality of our surrondings.👌

    ReplyDelete
  2. Usually I never comment on blogs but your article is so convincing that I never stop myself to say something about it. You’re doing a great job,Keep it up.

    ReplyDelete

Post a Comment

Post a Comment

Previous Post Next Post