حمنیٰ ایم مجتبیٰ
احباب پوچھنے لگے زندگی میں ایسا کون سا امتحان ہے جو سب سے مشکل ہے؟
تو اس کے جواب میں، میں نے ان سے کہا "زندگی میں ایسے بہت سے امتحانات ہیں جو بہت مشکل ہیں اور یہ انحصار کرتا ہے ہر انسان کی قوت برداشت اور اس کی نیچر پر" یہ کچھ ایسا ہے کہ کیمیائی اور ریاضی کو سب سے مشکل مضامین سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ ایک طالب علم ہے جس کے لیے کیمیائی اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، مگر دوسری طرف ریاضی اس کے لیے کے ٹو کا پہاڑ فتح کرنے کی مانند اور دوسرا طالب علم جس کے لئے ریاضی گلاب جامن ہے اور کیمیائی بکرے کے پائے بنانے کی مانند۔
اسی طرح زندگی کے امتحانات ہیں زندگی انسان کو مختلف پہلوؤں سے آزماتی ہے ۔اب اگر ہم ایک سادہ سی مثال لیں، دو طالب علم ہیں ان دونوں کے نمبر کم آگئے ہیں جن میں سے ایک طالب علم حالات کو صبر اور سمجھداری سے کچھ سیکھتے ہوئے ان کا سامنا کرتا ہے، جبکہ دوسرا طالب علم دلبرداشتہ ہو جاتا ہے یہ خبر اس کے لیے پہاڑ ٹوٹنے کی مانند ہوتی ہے۔
مختصراً ہر شخص کا قوت برداشت الگ ہے مگر ایک امتحان ایسا ہے جہاں پر صابر سے صابر شخص کے لئے کوئلوں پر ننگے پاؤں چلنے سا ہے اور وہ "انتظار" ہے۔
انتظار اصل میں آپ کے صبر کا امتحان ہے جس میں انسان کو آخری حد تک آزمایا جاتا ہے۔ نہ صرف انسان کو بلکہ اس کے ایمان کو، اس کے اعضاء کو، اس کی تعلیمات کو، اس کی عبادات کو، اس کی روح کو۔ جبہی تو صابر کا درجہ بہت بلند اور بہت فضیلت ہے۔
کڑوا پانی پیتے ہوئے آپ کو میٹھے پانی کا انتظار کرنا پڑتا ہے، گرم ریت پر چلتے آپ کو ٹھنڈی مٹی کی راہ تکنی پڑتی ہے، تاریکی میں ڈھوبی رات میں آپ کو صویرے کا منتظر رہنا پڑتا ہے، نا امیدی کے باوجود امید پر قائم رہنا پڑتا ہے اور ہر مشکل کے باوجود آخری سانس تک دعا گو رہنا پڑتا ہے۔
درحقیقت انسان بے صبرا ہے اور انتظار اس کے لئے موت کی مانند اگرچہ وہ کسی بھی چیز کا ہو اور وہ انتظار اور بھی خطرناک ہو جاتا ہے جس کے ختم ہونے کے دورانیہ کا پتا نہ ہو۔ اگر انسان کے علم میں ہو کہ بتائے ہوئے دورانیہ میں اس کا انتظار ختم ہوجائے گا تو پھر بھی اس کو کچھ صبر آ جاتا ہے۔ مگر جب علم ہی نہ ہو اور ہر دن یونہی کٹتا چلا جائے اور اس کا دورانیہ ختم نہ ہو تو وہ کرب مسلسل بن جاتا ہے۔ نہ محض یہ انسان کو آہستہ آہستہ ختم کرنا شروع کر دیتا ہے، ڈھلتی ہوئی صحت کے ساتھ دماغ کے حصے بھی کام چھوڑ جاتے ہیں، ایسی درد ناک کیفیت ہوتی ہے جس سے صرف آپ ہی گزر رہے ہوتے ہو اور آپ بظاہر کسی کو نہ سمجھا پاتے ہو اور نہ ہی بتا پاتے ہو۔ ہاں لیکن گزرتے وقت کے ساتھ آپ کا ڈھلتا وجود آپ کی حالات کی تشریح شروع کر دیتا ہے اور بعض انتظار انسان کو منوں مٹی تلے پہنچا دیتے ہیں۔
کبھی تم نے ماں کو دیکھا ہے اولاد کے انتظار میں؟
کبھی تم نے قیدی کو دیکھا ہے رہائی کے انتظار میں؟
کبھی تم نے بے بس کو دیکھا ہے موت کے انتظار میں ؟
کبھی تم نے عاشق کو دیکھا ہے محبوب کے انتظار میں؟
کیسے رات آنکھوں میں کٹتی ہے اور دن انتظار کی ٹک ٹکی میں کہ آخر کب انتظار کا سورج ڈھلے گا اور خوشیوں کا سویرا ہو گا۔
جو ہم راہ انتظار کا مسافر بنے، تو
منزل کو پاتے پاتے زندگی کا ایک حصہ کٹ گیا

Heavy 💔
ReplyDeletePost a Comment