رمضان المبارک کی برکت


حمنیٰ ایم مجتبیٰ

"اماں میرا بھی دل کرتا ہے روح افزا پینے کا۔اور بوٹیاں کھانے کا۔ اور۔ا ور۔ساتھ ٹھنڈی بوتل بھی۔ اور پکوڑے بھی اور نئے کپڑے لینے عید کے لیے"

اس نے معصومیت بھرا فرمائشوں کا پنڈولم باکس اماں کے آگے کھولا 

"اس دفعہ میں پرانے کپڑے نہیں پہنوں گا"

اس نے منہ بسورتے ہوئے کہا جس سے وہ اور بھی معصوم لگا۔

"ہاں ہاں میری جان۔ بس کچھ ہی دنوں میں رمضان ہے، پھر بڑی بیگم  زکوۃ نکالیں گی اور افطاری کے لئے سامان بھی تو اس میں سے میں تمہارے لیے یہ سب لے آؤں گی ۔ "

اماں نے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے کہا

اماں کی اس بات پر وہ ننے سے پھول جیسا دانیال جو ابھی مرجھایا ہوا تھا ایک دم سے کھل پڑا۔

پندرہ روزے گزر چکے تھے مگر ابھی تک بڑی بیگم نے نہ افطاری کے لئے کوئی سامان دیا اور نہ ہی زکوۃ پورے سال کی جو امید اس مہینے سے وابستہ ہوتی ہے کہ اس مہینے کچھ امداد سے چھوٹی موٹی ضروریات زندگی اور خواہش پوری ہو سکے اور اچھا کھانا میسر ہو جائے گا اسی امید پر سعدیہ بھی باقی غرباء کی طرح انتظار کی راہ تکتے تکتے پندرہ روزے گزر چکی تھی مگر اب تک بڑی بیگم کی طرف سے کوئی امید کی کرن نہ دیکھیں تو آخرکار ہار کر بچے کا منہ دیکھتے وہ بڑی بیگم سے درخواست کرنے آ پہنچی۔

"وہ۔ مجھے آپ سے۔"

"ہاں کہو"

"مجھے آپ سے کہنا تھا کہ آپ نے زکوۃ نہیں نکالی اس دفعہ"

ڈرتے کانپتے اس نے آخر درخواست کا پرچہ پیش کر ہی دیا

"تم کون ہوتی ہو یہ پوچھنے والی۔ اور نظر نہیں آرہا میری دوست بیٹھی ہے!!"

بڑی بیگم نے جلال میں آتے اسے اس کی اوقات یاد دلائی

سعدیہ سر جھکتے مایوسیوں شرمندگی کا ٹوکرا اٹھائے وہاں سے چلی گئی

"عفراء میں نے تم سے کچھ ضروری بات کرنی تھی اسی سلسلے میں آئی ہو"

"ہاں اب تم تمہید نہ باندھو ماہم۔سیدھا مدعے پر آؤ"

"میں بھی ایک آس لے کر تمہارے دروازے پر آئی ہوں امید ہے تو مایوس نہیں کروں گی۔۔۔ میرے خاوند کی طبیعت بہت خراب ہے اور ہمیں کافی بزنس لاس ہوا ہے، جس کی وجہ سے اتنے پیسے نہیں کہ میں مزید علاج کروا سکوں۔ اور جو جمع پونجی تھی وہ سب لگا چکی ہوں پر مہنگائی کے اس دور میں سب کچھ ہی مہنگا ہو گیا ہے۔۔ تو اگر تم۔"

"لو جی۔ ایک اور بھکاری آگیا۔"

عفراء نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا 

"تم لوگوں کو کیا لگتا ہے میں نے کوئی ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے یا یتیم خانہ  کھول رکھا ہے جو اپنے خاوند کا پیسہ ایسے لٹاتی پھروں۔"

وہاں سے نکلتے ماہم ایک پانچ سو کا نوٹ جو واپس گھر جانے کا کرایہ تھا وہ سعدیہ کے ہاتھ میں تھماتی گیٹ کی جانب چل دی

کچھ عرصے بعد وقت نے پلٹا کھایا اور اپنا رنگ دکھایا 

"اماں یہ کتنا ٹھنڈا ہے۔ کتنا میٹھا ہے۔ اور یہ پکوڑے۔ یم۔یم۔"

سعدیہ اور دانیال، ماہم اور اس کے شوہر کے ہمراہ ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھے اکٹھے سب روزہ افطار کر رہے تھے۔

ایک گزشتہ رمضان تھا جس میں اللہ وبارک تعالیٰ نے سعدیہ، عفراء اور ماہم کو آزمایا۔ ماہم کو تنگی سے، عفراء کو مال سے اور سعدیہ کو صبر سے۔ جس وہ تینوں اپنے ایمان اور اسلام کی تعلیمات کے مطابق اس آزمائش میں اتری۔  اور ایک یہ رمضان جس میں اس آزمائش کا نامہ اعمال ان کے سپرد کرتے ہوئے اس حساب سے انعامات سے انہیں نوازا گیا۔

رحمان صاحب کیا ہوا ہے

وہ دونوں ہاتھوں سے سر پکڑے پیٹ رہا تھا

"عفراء بیگم ہم ڈوب گئے۔ سارا پیسہ، میری زندگی کی جمع پونجی ڈوب گئی ۔ میں نے تو کبھی کسی کا حق نہیں مارا ۔ نہ جانے پھر یہ کیسا ظلم ہو گیا میرے ساتھ یا اللہ ۔"

"ہائے رحمان صاحب۔ ہائے ۔ہائے ۔آپ جو پیسے دیتے تھے زکوۃ اور غرباء کی مدد کے لیے وہ میں اپنی عیاشی کے لیے رکھ دیتی تھی۔ اور پچھلے رمضان تو سعدیہ کو بھی ایک پیسہ دیے بغیر نکال دیا۔"

اور بعض چیزوں کا صلہ انسان کو رہتی دنیا میں ہی مل جاتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

"جو قوم زکوۃ سے انکار کرتی ہے اللہ تعالی اسے بھوک اور قحط سالی میں مبتلا کر دیتا ہے"

کب کیا پتا کون سا عمل اللہ وبارکۃ تعالی کو بہت پسند آ جائے اور کون سی ایک چھوٹی سی غلطی بھی اس کو ناگوار گزرے اور خاص طور پر جب خدا آپ کو اتنا دے تو اس میں سے اس کی راہ میں ضرور دیں اور اپنے اردگرد والوں کا خاص خیال کیجئے اور کبھی کسی کو خالی خالی ہاتھ مت جانے دیں۔ خاص طور پر رمضان کے بابرکت مہینے میں۔ رمضان کے مہینے کے ہی کرم سے ماہم کا پانچ سو سعدیہ کو دینا اس کے حضور اتنا پسندیدہ ٹھہرا کے اس نے خوب اپنی رحمت سے نوازا اور وسیلہ پیدا کر دیے اور سعدیہ کے صبر اور پکار نے اسے ماہم جیسے وسیلے سے غیبی مدد کی۔  رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ہر نیکی، عبادات کا اجر ہزاروں گنا بڑھ جاتا ہے۔ بیشک زکوٰۃ نیکی کے ساتھ ایک عبادت بھی ہے اور صبر بھی ایک عبادت ہے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

"آپ نے اپنے مال کی زکوٰۃ دے دی تو آپ نے مال کا وہ حق ادا کر دیا جو آپ پر واجب ہے"

 

1 Comments

Post a Comment

Post a Comment

Previous Post Next Post