مٹھاس اور گزارش


 

حمنیٰ ایم مجتبیٰ

یہ انسان ایک ایسی عجیب گتھی ہے۔ جس کو سلجھانے یا سمجھنے بیٹھو تو پہلے سے زیادہ الجھ کر رہ جاتی ہوں۔

جو کام محبت اور عزت سے بھی اپ کروا سکتے ہو اس کے لیے روک دبدبہ سختی سردمہری درندگی احتیاط کیوں کرنی پڑتی ہے ؟جو کام محبت کے دو بول بھی کروا سکتے ہیں اس کے لیے کرواہٹ کا استعمال کیوں کرنا پڑتا ہے؟

انسان بھوکا ہے محبت کا آپ اس کو محبت سے بھر دوں تو وہ جان نثار کے لئے ان کھڑا ہو جاتا ہے پھر آدم کے لئے سختی کیوں؟

اگر ساس بہو کو بیٹی کہہ کر کام کہہ دے تو وہ خوشی خوشی کر دے تو پھر بہو کہہ کر اس کا خاندان گندہ کرتے ہوئے اور سختی کرکے کام کروا کر کیا حصول؟بیگم کی تھوڑی سی تعریف پر وہ آپ کی ہر بات پر مثبت میں سر ہلا دیتی ہے تو پھر اس پر ہاتھ اٹھا کر بات کیوں منوانا؟جب آپ کے اپنے آپ کے پیارے آپ کی محبت اور مٹھاس سے آپ کے آگے موم بن جاتے ہیں، تو پھر کیسی تسکین ہیں اپنی طاقت کا روپ دکھاتے، اپنے پیسے کا پریشر ڈالتے، کمزوریوں کو آڑے لا کر ان کا غلط استعمال کر کے اپنی بات منوا کر یہ کیسا سکوت ہے ؟ کیا یہ فتح ہے؟ آخر وقتی بادشاہت کا حصول کیا ہے؟ محض جو دلوں میں تا قیامت تک رہ جائے گا وہ آپ کی پستگی اور ذلت ہے۔ 

اور جب وہ آدم کو خود سے دور کرتا ہے تو اس کو گمراہ کر دیتا ہے۔ اور آدم اس گمراہی کو اپنی فتح سمجھتے اس پر ٹھاٹیں مارتا ہے جس کا انجام بہت دردناک ہے۔ 

حقیقت میں یہ آدم کی دوسرے آدم کے آگے سب سے بڑی شکست ہے اور اس رب العزت کے سامنے آدم کی پستگی ہے۔ غلط اختیارات کا استعمال کرکے آپ ایک عرصہ حکومت تو کر لیتے ہو مگر اس کے بعد کیا؟ باقی کا حصہ حیاتی کا آپ کے حصے میں تنہائی، اور لعنت و ملامت کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ کسی کا سکون غرق کر کے آپ کیسے توقع رکھ سکتے ہو کہ آپ کا ضمیر آپ کا اندر پرسکون رہے؟ تو پھر یہی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے چودہویں صدی گلے کرتی ہے، اور شکوے کرتی پھرتی ہے کہ

"میں بے سکون ہوں۔ مجھے قرار نہیں۔ کوئی دوا دو، کوئی دعا دو کہ قرار آ جائے یا موت آج بس چین آ جائے" 

پھر ان ہی وجوہات پر نمازیں بھی آپ کو راہ نہیں دیتی، سکون نہیں دیتی۔ کیونکہ اس نے صاف صاف کہا ہے

"میں خود کا معاملہ تو معاف کردوں گا پر اپنے بندے کا معاملہ معاف نہ کروں گا جب تک وہ تجھے معاف نہ کر دے "

اللہ پاک کی ذات اس دنیا میں ہی بد سکون کر دیتی ہے آپ کو۔ اپنے در سے ٹھکرا کر پھر ہر در پر وہ ٹھکراتا ہے۔ آخر پر ہر شے کو زوال ہے، ہر شے کا اختتام ہے، پھر یہ غرور کیسا؟  یہ جلال تو صرف اس الشکور العلی الکبیر ہمیشہ رہنے والے کے لیے ہے۔ 

اے آدم تو تو خاک ہے۔ تجھے اک دن مٹی ہو جانا ہے

 تھوڑا سا جھکاؤ اور لہجے میں مٹھاس اور گزارش ، آپ کو گراتا نہیں بلکہ بلند کرتا ہے۔ آدم اور اس کے رب دونوں کی نظروں میں۔ 

 اور فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے

 "اور جھکنے سے تمہاری عزت گھٹ جائے تو قیامت کے روز مجھ سے لے لینا" 

 اور کیا ہی بہتر ہو اگر ہم رشتوں کو ان کے رشتے کی نوعیت دیکھے بغیر، غیر اور اپنوں کا فرق بھول کر سب سے خلوص اور محبت سے یکجا پیش آئیں

Post a Comment

Post a Comment (0)

Previous Post Next Post