حمنیٰ ایم مجتبیٰ
پرندوں کی چہچہاہٹ ساری فضا میں گونج رہی تھی اور پھولوں کی مہک چاروں اجناب میں پھیلی تھی کبھی موتیوں کی خوشبو کا جھونکا تو کبھی گلاب کی خوشبوکا۔ جب وہ ایک درخت کے نیچے پڑے بینچ پر بیٹھے روز کے معمول کی طرح اس منظر سے اپنے سوالات کے جواب کو کھوج رہی تھی۔
زندگی کی انتھک دوڑ میں جب بھی وہ بہت زیادہ تھک جاتی اور زندگی کی تلخ حقیقت کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کے لئے تقریباً روز ہی اپنے گھر کے پانچ منٹ پر ہونے والے اس باغ میں آجاتی جہاں پر اس کو قدرت اور انسان کی روز مرہ کی زندگی اور ان کے معاملات ایک ساتھ دیکھنے اور سمجھنے کو ملتے۔
آج وہ بدامی رنگت کی لڑکی زیادہ ہی جلدی باغ کو آ گئی تھی ورنہ وہ شام میں ہی تھکی ہاری باغ کا رخ کرتی، پر شاید آج بات زیادہ پیچیدہ تھی جو اس کو پریشان کر رہی تھی جب بھی اس کا آنا آج سہ پہر کو ہوا تھا۔
روز مرہ کی طرح پرندے اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے ایک نئے دن کے لیے اناج کی کھوج میں نکلے تھے اور کچھ ابھی نکل رہے تھے اور جن میں سے ایک چڑیا سامنے والے برگد کے وسیع درخت پر گھونسلہ بنانے میں مصروف تھی۔
دوسری طرف شبنم کی بوندیں انتہائی انصاف کے ساتھ ہر پتے، پھول کی کلی، درخت کی ٹہنیوں اور گھاس پر بہت ہی خوبصورتی سے موتیوں کی طرح بکھری تھی جس پر سورج کی کرنیں اس سے زیادہ انصاف سے باغ کے چاروں اجناب موجود موتیوں سے شبنم کے قطروں کو کوہ نور کی چمک دیتی ان میں جان بھر رہی تھی۔
بزرگ اور جوان مارننگ واک کرتے ہوئے کچھ دیر آرام کے لئے وہاں پر موجود بینچیس پر ریسٹ کرتے اور پھر دوسرے راونڈ کے لیے دوبارہ واک شروع کر دیتے۔ دوسری جانب باغ والی سڑک سے چھوٹے بچے یونیفارم میں ملبوس سکول بیگ پہنے دوڑتے سکول بس کی جانب بھاگ رہے تھے اور کچھ نوجوان دفاتر کے لئے نکل رہے تھے مختصراً ہر کوئی اپنی منزل کا سفر طے کرنے کے لیے نکل چکا تھا۔
مگر درحقیقت یہ منظر اتنا دلکش ہونے کے باوجود بہت گہری اداسی خود میں رکھے تھا آخر وہ کیا تھا جس کے لیے بظاہر جو سب خوش اور زندہ نظر آرہا تھا مگر حقیقت میں کچھ پھول، کچھ ٹہنیاں، کچھ پرندے اور کچھ انسان اداس تھے؟ ابھی وہ انہی سوچوں میں گم تھی کہ اس کی نظر دائیں جانب لگے گلاب پر پڑی جس کے پھول جو جھڑنے کو تھے دو دن پہلے وہ جھڑ چکے تھے اور ان کی جگہ نئ کلیاں کھل رہی تھی۔ مرجھائے پھول کے پتے اسی پودے کے گرد زمین پر گرے تھے جو بس ابھی مٹی میں غائب ہونے کو تھے۔
جہاں ایک طرف گلاب کا پودا نئ کلیوں پر خوش اور مہک رہا تھا دوسری جانب اس کی کچھ شاخیں پرانے پھولوں کی مر جانے پر اداس تھی۔ گلاب کی کلی کا نظام بالکل ایسا ہے جہاں ایک کونے میں کسی کی پیدائش پر خوشیاں اور جشن منایا جارہا ہوتا ہے وہاں دوسری جانب دنیا کے دوسرے کونے میں کسی کے چلے جانے پر ماتم منایا جارہا ہوتا ہے۔ جبکہ جانے اور آنے والا ایک ہی گلاب کی شاخیں ہوتا ہے جس سے آپ دنیا کہ سکتے ہیں۔
دنیا کی تصویر بھی تو بظاہر بہت دلکش اور خوبصورت ہے جبکہ اس تصویر کا دوسرا رخ انتہائی تلخ اور اداس ہے۔ وقت ایک ہی ہوتا ہے مگر ہر جاندار کے لیے وہ مختلف رول پلے کرتا ہے۔
انہی سوچوں میں گُم اسے اندازہ ہی نہ ہوا اور دوپہر ہو گئی جب زوردار ہارن کی آواز اس کے کانوں میں پڑی ہارن کی آواز نے اسے سوچو کے دریا سے باہر نکالا، اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا تو سکول بس میں سےنکلتے بچے شور کرتے اپنے گھروں کی جانب بھاگ رہے تھے۔
چڑیا اپنا گھونسلا مکمل کر چکی تھی اب وہ یقیناً اپنے بچوں کے کھانے کے لئے اناج ڈھونڈنے کو گئی تھی، تتلیاں جا چکی تھی، شبنم کی بوندیں ہوا میں غائب ہوگئی تھی پھولوں کی مہک بھی کچھ پھیکی پڑ گئی تھی۔
اسے بہت حد تک اپنے سوالوں کے جواب مل چکے تھے زندگی کا تلخ چکرویوں نہ کسی کی موت پر رکتا ہے، نہ کسی کی بربادی۔ یہ ایسا چکرویوں ہے جو بظاہر دلکش ہے مگر درحقیقت انتہائی تلخ۔ جس پر تہ شدہ نظامات روز اپنے معمول کے مطابق چلتے رہتے ہیں۔
بینچ سے اٹھتے ہوئے گلاب کی کلی پر انگلیاں پھیرتے وہ باہر چل دی۔

Bohtt Umdaah Likha 💞🔥
ReplyDeletePost a Comment