خطا سے خود کی معافی تک



حمنیٰ ایم مجتبیٰ

اماں آپ ہمیشہ ایسا کیوں کہتی ہیں؟ اس نے ڈونگا زور سے سلیب پر پٹخا۔

حنا۔۔۔ انہوں نے محبت سے اس کا نام لیا۔ میں تمہاری ماں ہوں نا اس لیے تمہیں مجھ میں کوئی غلطی، کوئی عیب نہیں دکھتا۔ انہوں نے وضاحت پیش کی۔ 

نہیں۔۔۔ یہ بات نہیں ہے۔۔۔ اگر آپ میری ماں نہ بھی ہوتی تب بھی میں آپ سے یہی کہتی۔ اس نے اماں کی بات پر احتجاج کیا۔ اور آج آپ مجھے بتا ہی دیں کہ ایسی کیا بات ہے جس کے لیے آپ خود کو آج بھی معاف نہیں کرتی؟

کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد اماں نے گہری آہ بھرتے ہوئے کہا۔۔۔ میں لگ بھگ تمہاری عمر کی تھی جب نانی ہمارے دروازے پر آئی تھی، میری ماں کا پوچھنے کے لئے کہ وہ گھر پر ہے یا نہیں۔ کیونکہ ان کے سب بیٹوں نے انہیں رکھنے سے انکار کر دیا تھا تو آخری دروازہ ہمارا تھا جہاں وہ آئی تھی۔ پر کچی عمر تھی تو دل میں خیال آیا پہلے ہی اتنے مہینے ہماری طرف رہ کر گئی ہیں تو آج پھر آ گئی ہیں۔ اس لیے میں نے انہیں کہا آپ چلی جائیں ماموں کی طرف امی گھر نہیں۔ اور میرا لہجہ کافی سخت تھا۔ اماں کے چہرے پر ندامت صاف صاف رقم تھی۔ وہ وہاں سے خاموشی سے چلی تو گئی اور جب دیر بعد احساس ہوا تو میں اللّٰہ سے معافی بھی مانگی مگر ان کی خاموشی آج بھی مجھ میں شور کرتی ہے کہ شاید اسی غلطی کی سزا بار بار میرے آگے آ جاتی ہے۔ 

معاف کر دینا مشکل ترین عمل میں سے ایک ہوتا ہے۔ پھر وہ معاف کرنا خود کو ہو یا پھر کسی اور کو دونوں صورتحال ہی انتہائی مشکل ہیں اور اس سے زیادہ خود کو معاف کرنا ہے۔ 

انسان سے کئی غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں جانے یا انجانے میں۔ کہ آخر انسان غلطیوں کا پتلا ہے اور اگر وہ قدم پھونک پھونک کر بھی رکھے تو تب بھی کوئی نہ کوئی غلطی اس سے سرزد ہو جاتی ہے۔ مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ان کی غلطیوں کو موت کا مسئلہ بنا لیا جائے۔  اللہ پاک نے معافی کا ایک راستہ بھی رکھا ہے، کیونکہ وہ ذات جانتی ہے اس کا بندہ نہ چاہتے ہوئے بھی کوئی نہ کوئی خطا کر بیٹھتا ہے اور اس لیے اس نے آدم کو معافی کی راہ دکھائی ہے۔ 

ایک غلطی تو حضرت آدم اور حضرت حوا سے بھی سرزد ہوئی جس کے لیے انہوں نے اللہ بارک تعالیٰ کے حضور معافی کی درخواست کی جس پر ان کو معافی مل گئی۔ بے شک وہ ذات انتہائی غفور و الرحیم ہے۔ جتنا انسان خطا کار، سیاہ کار ہے اس سے کئی گناہ زیادہ وہ رحیم ہے معاف کرنے والا ہے۔ اب اس خطا پر اللہ نے آدم اور حوا کو جہنم میں نہیں پھینکا، بلکہ مقررہ وقت کے لئے ان کو آزمائش دی، جس میں ان کو معافی کا راستہ سکھایا۔ 

تو آپ بھی کوشش کیجئے اللہ کے حضور معافی مانگیے وہ ذات معاف کرنے والی ہے اور اس کے بعد اس شخص سے بھی معافی مانگ لیجئے جس کا آپ کو لگتا ہے کہ آپ نے دل دکھایا۔ کیونکہ شرط اول یہی ہے وہ اپنے حقوق تو معاف کر دے گا پر اپنے بندے کے نہیں اور پھر آگے بڑھیے۔  نہ کہ تمام عمر اسے ناسور غلطی بنا کر قبر تک گھسیٹ کر لائیے، بے شک بعض غلطیاں اور جرم بہت بڑے ہوتے ہیں مگر سچے دل سے اگر آپ اعتراف کر لیں تو آپ کو اس پر معافی مل جاتی ہے۔ 

جب اللہ آپ کو معاف کر دے

 تو کوشش کیجئے آپ بھی خود کو معاف کر دیں

1 Comments

Post a Comment

Post a Comment

Previous Post Next Post