حمنیٰ ایم مجتبیٰ
کسی کے ساتھ منسلک رشتے کو دوسرے لفظوں میں کیا نام دیں گے؟
میرے نزدیک یہ پیروں میں بندھی وہ زنجیر ہے جو نہ آپ کو آگے بڑھنے دیتی ہے اور نہ ہی پھر پیچھے جانے کا راستہ دیتی ہے۔ اس کی مضبوطی اس قدر شدید ہوتی ہے کہ اس سے چھٹکارے کی صرف دو ہی صورتیں ہیں۔
بلند نڈر حوصلے اور ہمت سے اگر چہ انسان ان زنجیروں کو توڑ کر آگے بڑھ بھی جائے تو ان سے لگے گہرے زخم اور انکے نشانات تا عمر رہ جاتے ہیں۔ اور دوسری صورت موت ہے جس میں انسان ان زنجیروں میں جھکڑا ہی مر جاتا ہے اور آزادی موت کی صورت میں پاتا ہے۔
رشتوں کی زنجیر کسی نہ کسی تعلق کی صورت میں ہر ایک کے لیے باعثِ زینت ہے۔ پیروں میں بندھی جانے والی یہ زنجیر سب سے بڑی شادی جیسے تعلق کی صورت سے زندگی کے قدموں میں باندھ کر پائل کی زینت بنائی جاتی ہے۔ جس کو بڑی خوبصورتی سے سجا کر تاعمر انعام کے طور پر انسان کو اس میں قید کر دیا جاتا ہے۔
پیروں تلے سے زمین اور سر سے آسمان تو تب نکلا جب میں نے ایسی ہی بندھی ہوئی زنجیز میں ایک ماں کو دیکھا جس نے اپنی زندگی کا حصہ اس قید میں اپنی اولاد کی خاطر گزار دیا۔ میں نے اس ماں کو اولاد جیسی بیڑیوں سے بندھا دیکھا۔ تاعمر اس کی آنکھوں میں آزادی کی پیاس دیکھی، جیسی ایک قیدی کی آنکھوں میں رہائی کی ہوتی ہے۔ کلیجہ تو تب چیرہ گیا جب وہ چٹان سی عورت حقیقتاً رشتوں کی قید میں ہر گزرتے دن کے ساتھ گھٹتی جا رہی تھی۔ نہ میسر کوئی کندھا رونے کے لئے اور نہ ہی کوئی اپنا جس کو حال دل سنا سکےاور مجبوریوں کی پٹی تاعمر اس کے ہونٹوں پر بندھی رہی۔ اور پھر ایک دن انہی اپنوں کی زنجیروں اور رشتوں کی گھٹن نے بنت حوا کی سانسیں چھین لی۔
آخر کیا گناہ تھا اس کا؟ ماں باپ کے فیصلے پر سر جھکانے کا؟ خاوند جیسے مجازی خدا سے وفا کرنے کا؟ ایک ماں ہونے کا؟ یا پھر ایک عورت ہونے کا کبیرا جرم جس کی سزا کاٹتے کاٹتے اس کی زندگی کی سانسیں کٹ گئی۔
اپنے اردگرد موجود رشتوں کو اتنا مت گھونٹے کہ ان کی سانسیں گھٹ جائیں۔ ان کو سانس لینے کی گنجائش دیجئے۔ انہیں آپ کے ساتھ منسلکیت کی سزا مت دیجئے اور نہ ہی آپ کے ساتھ موجود تعلق کا ہرجانا عمر بھر بھرنے دیجیے۔
انہیں کندھا میسر کیجئے رونے کے لئے اور ساتھ دیجئے آگے بڑھنے کے لئے۔ ان کو حق دیں جینے کا نہ کہ ان کی زندگی کو سزا اور قید بنائیں۔
مت کیجئے بنت حوا کے ساتھ ایسا جن کے قدموں میں اس ذات باری تعالیٰ نے جنت رکھی ہے۔ جس کو بیٹی کی شکل میں رحمت بنا کر بھیجا ہے اور نکاح جیسے پاک رشتے میں ایک خوبصورت ساتھ بنا کر تحفہ دیا ہے۔اس کی عورت ذات کو اس کا گناہ مت بنائیے۔
میرا سوال یہ ہے۔ جس رشتے کو سانس لینے کا پورا حق اس غفور الرحمان نے دیا ہے تو اس کی سانسیں چھیننے کا حق آپ کو کس نے دیا؟
جس کو آگے بڑھنے کے قدم اور آزادی کی منزل اللہ وبارک تعالیٰ نے دی ہے تو آپ کو کس نے وہ اختیار دیا کہ اس کو رشتوں کا سہارا دے کر دھوکے سے رشتے کے نام پر زنجیروں میں قید کریں؟
بے شک قیامت کے روز تم اپنے ہر اعمال کے جواب دے ہو گے
زنجیروں میں بندھا میں نے قیدی کو دیکھا تھا
پھر اک روز آدم کو رشتوں کی قید میں بندھا دیکھا
ا

Post a Comment